عافیہ صدیقی کے لیے جب مولویان صاحبان پاکستان میں فقط مظاہرے کر رہے تھے تب عافیہ کے لیے پہلی پٹیشن عاصمہ نے دائر کی۔ یہ عاصمہ جہانگیر ہی تھی جس نے دنیا کو بتایا تھا کہ عافیہ نامی خاتون کے ساتھ دراصل ہوا کیا ہے۔ نیز عافیہ کے بیٹے کے لیے عاصمہ جہانگیر جناب مشرف کے راستے میں کھڑی ہوئی تھی۔
جب ماوارائے عدالت لاپتہ کیے جانے والے مجاہدین فی سبیل اللہ کی خبر لینے کا ابھی کسی کو حوصلہ نہیں تھا تب ان کی بازیابی کے لیے عاصمہ جہانگیر نے پٹیشن دائر کی۔ تحریک چلائی اور جو مذہبی دہشت گرد غائب کیے گئے تھے وہ انہی کی پٹیشن کے نتیجے میں آئی ایس آئی عدالت میں پیش کرنے پر مجبور ہوئی۔ پشاور کا وہ مقام جہاں ان لوگوں کو ماورائے عدالت رکھا گیا تھا اس کا علم سب کو تھا مگر بیچ چوراہے پہ اس کی نشاندہی عاصمہ جہانگیر نے کی تھی۔
جب اسامہ بن لادن کی فیملی کو ایبٹ آباد آپریشن کے بعد گرفتار کیا گیا تو عاصمہ جہانگیر نے آواز اٹھائی کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے انہیں رہا کیا جائے۔ اور یہ پاکستان میں پہلی اور آخری آواز تھی، یہ بات کہنے کی ہمت ان کے سوا کسی کو نہیں ہوئی۔
کشمیر میں جب برہان وانی کو قتل کرکے سری نگر میں کرفیو لگایا گیا تو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے انڈیا کے خلاف پہلا احتجاج عاصمہ نے کیا تھا۔ سری نگر میں انڈین افواج کے مظالم کا چشم دید احوال عاصمہ جہانگیر نے اسی مظاہرے میں شرکا کو سنایا تھا۔
جب ابھی امت مسلمہ کو خبر بھی نہیں تھی صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت قرار دے دیا ہے تب سب سے طاقتور ٹویٹ پاکستان میں ٹرمپ کے خلاف عاصمہ جہانگیر کی آئی تھی۔
عاصمہ کا قصور صرف ایک ہے۔ ہاکستان میں فوجی اشرافیہ کے خلاف آواز ہی نہ اٹھانا بلکہ جدو جہد بھی کرنا۔ اس کی قیمت عاصمہ نے ادا کی ہے اور ادا کرتی رہے گی۔۔ یہ بات محب وطن پاکستانیوں کو جب سمجھ آئے گی تب وقت گزر چکا ہوگا۔
پاکستان میں ہر وہ مذہبی سیاسی صوفی جو فوج کے کیمپ میں ہوگا وہ عاصمہ کو گالی دے گا۔ جو نہیں ہوگا وہ احترام کرے گا۔
یہ بات نوے کی دہائی میں جنرل اسلم بیگ جنرل اسد درانی اور جنرل حمید گل کے ساتھ مل کر بے نظیر بھٹو کی حکومتیں گرانے والے نواز شریف کو بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ کیونکہ تب میاں صاحب "محب وطن" ہوا کرتے تھے۔ اب جب وہ خود فوج کے شکنجے میں ہیں تو انہیں اور ان کے کارکنوں کو احساس ہوچکا ہے کہ عاصمہ دراصل کون ہے۔
آپ صرف اس وقت کا انتظار کیجیے جب عمران خان اور فوج کے بیچ کسی بھی وجہ سے سیاسی تصادم پیدا ہوگا۔ تب آپ کو احساس ہوجائے گا کہ عاصمہ جہانگیر کسے کہتے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment