قومی شاہراہ پر ٹریفک رواں دواں تھا‘ اچانک ٹائر پھٹنے کی آواز آئی ‘ ٹینکر کے بریک چرچرائے اور وہ بد مست فیل کی طرح لہراتا ہوا ٹینکر پلٹ گیا۔ حادثے کے سبب ٹینکر سے آئل بہنے لگا۔
موٹر وے پولیس چند لمحوں میں جائے حادثہ پہنچ گئی۔ ابھی ریسکیو آپریشن شروع ہی کیاتھا کہ قریبی باغ میں کام کرنے والے مزدور اورہائی وے سے ملحقہ بستی کے مزدور جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔
غربت سب کے چہرے سے عیاں تھی۔ فاقے سب کے ماتھے پر رقم تھے ۔۔ انہوں نے انتہائی بے ہنگم طریقے سے پٹرول جمع کرنا شروع کردیا ۔۔ کرنا کیا تھا اس سے۔۔ کیا کسی حاکم کے محل کو آگ لگانی تھی ۔۔ نہیں ہرگز نہیں ‘ مقصد بس یہ کہ ایک حادثے سے چند روپوں کی آسانی کشید کرلیں۔
میں نے پنجاب میں موٹر وے پولیس کو متحرک طریقے سے کام کرتے دیکھا ہے ‘ وہ کہہ رہے ہیں اور یقیناً ٹھیک کہہ رہے ہوں گے کہ انہوں نے ان غریبوں کے تیل کی اس بہتی دولت سے دور ہٹانے کی کوشش کی ۔۔ یقیناً کی ہوگی۔ وہ بتاتے رہے کہ یہ خطرناک ہے ‘ لیکن غربت جن کے ماتھے پر رقم تھی انہوں نے ایک نہ سنی۔
اچانک فیلِ بدمست دھماکے سےپھٹ گیا۔۔ کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے ہوتے ہیں‘ تیل لوٹنے والے تیل میں ڈوبے ہوئے تھے اور بس پھر کیا ۔۔ ایک لمحہ قیامت کا برپا ہوا۔۔ ایسے واقعات دیکھ کرگماں ہوتا ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو کیسی ہوگی۔
کسی نے سگریٹ سلگائی یا تباہ شدہ ٹینکر میں آگ لگی یہ تو بعد میں پتا چلے گا فی الحال خبر یہ ہے کہ 125 افراد جل کر راکھ ہوگئے اور 140 جھلس کر زخمی ہوگئے۔ 125 گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی اور 140 ابھی امید و بیم کی کشمکش میں ہیں۔۔ جو مرگئے ان کی شناخت ممکن نہیں جو زندہ ہیں ان کا علاج ممکن نہیں‘ جرم کیا تھا۔۔ انہوں نے ایک حادثے سے چند روپے کی خوشی کشید کرنے کا ناقابلِ تلافی جرم کیا تھا۔۔
وہ جنہیں زندگی نے کبھی شناخت نہ دی ‘ بعد مرنے کے بھی ناقابلِ شناخت قرارپائے ہیں ۔۔ اب جو مرضی سرکار کی‘ ان کی لاشوں کا ڈی این اے کرتی ہے ‘ یا اس غربت کا جس
کے سبب ایسے المیے جنم لیتے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment